01-May-2022 لیکھنی کی کہانی ۔ آں چست از روز میری قسط 17
آں چست
از روز میری
قسط نمبر17
احد باوضو ہو کر واش روم سے نکل کر ناک کی سیدھ پہ آیا جہاں دیوار کے ساتھ بنے لکڑی کے مخصوص کیبنٹ سے جائے نماز نکالی پھر فرش پہ قبلہ رخ بچھا کر عشاء کی نماز ادا کرنے لگا۔
نماز ادا کرنے کے بعد اسنے رب کے حضور دعا مانگی پھر جائے نماز سائیڈ پہ رکھتے بیڈ پہ آبیٹھا۔
سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھا کر مشائم کے نمبر پہ "گڈ نائٹ مائی لو" کا میسج کیا پھر فون سائیڈ پہ رکھتے بیڈ پہ لیٹ کر آرام کی غرض سے آنکھیں موند لیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
" کیا ہوا مشائم؟ تم پریشان لگ رہی ہو۔ سب خیریت ہے؟"۔ فروا جو مشائم کے ساتھ اسکے روم میں رہ رہی تھی' مشائم کے چہرے کے تاثرات بھانپتے متحیر ہوئی۔
"فروا یار میں کل کی بات کو لے کر بہت پریشان ہوں۔ مجھے بہت عجیب لگ رہا ہے"۔ مشائم جو ڈریسنگ کے سامنے کھڑی تھی اب اس طرف آئی۔
"کونسی بات؟؟"۔ فروا جو تاج کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی تھی فورا سے سیدھی ہوئی۔
"یار فروا کل احد کے ساتھ میرا رویہ اچھا نہیں تھا اگر وہ مجھ سے پیار کرتا ہے میں بھی تو کرتی ہوں اس سے مگر میں نے جو کیا ایسے تو پیار کرنے والے نہیں کرتے ان فیکٹ میرے رویے کا اس پہ رتی برابر بھی اثر نہیں ہوا"۔ مشائم نے تفصیل دیتے کہا۔
"مشائم تمھیں ایسا نہیں لگتا کہ تم کچھ زیادہ ہی سوچنے لگی ہو؟ ابھی کل ہی تو تم احد سے ٹھیک سے بات کر رہی تھی اور وہ تم سے' مطلب کہ احد تم سے ناراض نہیں نا ہی ہو سکتا ہے کیونکہ وہ باقیوں سے مختلف ہے۔ تمھیں اگر زیادہ گلٹ ہے تو اسکی تلافی کر لینا فلحال تو مجھ پہ رحم کھاو میں کب سے تمھاری منتطر ہوں چلو چل کے ناشتہ کرتے ہیں"۔ فروا عجلت میں بیڈ سے اٹھی۔
"تم میرے ساتھ چلو گی کیا احد سے ملنے؟"۔ مشائم فروا کے قریب آئی۔
"ہاں ہاں چلوں گی لیکن ابھی تو میرے ساتھ چلو"۔ فروا نے فورا سے ہامی بھری۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
احد انٹرنس پار کرتا ہال میں پہنچا ہی تھا کہ اسکا فون چنگارا قدموں کی حرکت کو تھامتے احد نے پینٹ کی پاکٹ سے فون نکال کر سکرین پہ نظر دوڑائی جہاں ڈی جے چیتس کا نمبر تاباں تھا۔
ہیلو ہاں چیتس بولو؟"۔ کال ریسیو کرتے ہی احد نے کہا۔
"احد یار کیسا ہے؟"۔ دوسری جانب ہولے سے کہا گیا۔
"میں ٹھیک ہوں تم سناو؟"۔
"میں بھی ٹھیک ہوں یار احد تمھیں ان دنوں کوئی مصروفیت تو نہیں؟"۔ نفوس نے احتیاط پوچھ لیا۔
"مصروفیت ہے تو نہیں' میری شادی ہے"۔ احد نے انتباہ کیا۔
"مبارک ہو بڈی"۔ دوسری جانب شادمانی سے کہا گیا۔
"خیر مبارک"۔
"اچھا احد یار اگر تھوڑا وقت نکال لے تو ایک گانے کی ریکارڈنگ کروانی ہے"۔ نفوس نے مدعہ بیان کیا۔
"ریکارڈنگ' ٹھیک ہے کوئی اشو نہیں"۔ سوچ بچار کے بعد احد نے ہامی بھری۔
"ایک اشو ہے احد"۔
"کیسا اشو؟"۔ احد حیران ہوا۔
"یہ ریکارڈنگ اسلام آباد سٹوڈیو میں ہوگی اس لیئے تمھیں اسلام آباد آنا ہوگا کیونکہ میں ادھر ہی ہوں"۔ نفوس نے آگاہی دی۔
"یار چیتس یہ تھوڑا مشکل ہو جائے گا"۔ احد سوچ میں پڑ گیا۔
"دیکھ احد ایک دن کی بات ہے پلیز یار مان جا"۔ دوسری جانب اصرار کیا گیا۔
"چل ٹھیک ہے میں دیکھتا ہوں ویسے ریکارڈنگ کل ہی کرنی ہے نا؟"۔ احد نے کنفرم کیا۔
"ہاں کل ہی"۔ نفوس نے جوابا کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"ماما ایک روز کی بات ہے میں آ جاوں گا کل شام تک"۔ احد اپنے روم میں کپڑے اور ضرورت کی چند اشیاء بیگ میں رکھ رہا تھا جب راضیہ بیگم اسکے روم میں آتے اعتراض کرنے لگیں جس پہ احد نے جوابا کہا۔
"احد بیٹا مجھے تو یہ ٹھیک نہیں لگ رہا' کیا ریکارڈنگ ضروری ہے؟"۔ راضیہ بیگم نے خفگی کا اظہار کیا۔
"جی ماما یہ ریکارڈنگ کل ہی کرنی ہے اس وجہ سے جانا پڑ رہا ہے' آیا ممکن ہوتا بعد میں ریکارڈنگ کرنا تو میں قطعا نا جاتا"۔ بیگ پیک کر کے احد نے لاک کر کے بیڈ سے فرش پہ اتارا۔ "ماما پریشان نا ہوں آپ تو ایسے فکر مند ہو رہی ہیں جیسے میں کوئی کم سن بچہ ہوں جو اپنی حفاظت نہیں کر سکتا یا میں آپ سے کبھی دور گیا ہی نہیں"۔ راضیہ بیگم کے قریب آتے احد نے راضیہ بیگم کے شانوں پہ ہاتھ رکھا۔
"ماں ہوں میں تمھاری احد کیسے فکر مند نا ہوں؟"۔ راضیہ بیگم جبرا مسکرا دیں۔
بیگ اٹھائے احد راضیہ بیگم کے ہمراہ روم سے نکل آیا تھا۔
"بیٹا مشائم کو بتایا ہے؟"۔ خیال آتے ہی راضیہ بیگم نے کہا۔
"نہیں ماما میری مشائم سے اس حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ میں نے خود ہی اسے نہیں بتایا خواہ مخواہ پریشان ہونے لگے گی اور آپ بھی اسے مت بتائیے گا"۔ راضیہ بیگم کے ہمقدم وہ سیڑھیاں اترنے لگا تھا۔
"میں تو نہیں بتاوں گی لیکن اگر اسے کہیں اور سے پتہ چلا تو وہ خفا ہوگی تم اچھے سے جانتے تو ہو اسے"۔ راضیہ بیگم نے باور کرایا۔
"جی ماما جانتا ہوں اسکی ناراضگی زیادہ دنوں کی مہمان نہیں ہوگی وہ میں مینیج کر لوں گا لیکن وہ پریشان رہے میری وجہ سے یہ میں افورڈ نہیں کر سکتا"۔ سیڑھیاں اترتے ہی احد راضیہ بیگم کے مقابل کھڑا ہوا۔
"بس تم زیادہ ٹائم مت لگانا اور جلد از جلد لوٹ آنا"۔ راضیہ بیگم نے تنبیہ کی۔
"جی ماما میں اپنی پوری کوشش کروں گا"۔ احد نے متبسم انداز میں کہا۔
"احد تم کہیں جا رہے ہو؟؟"۔ حرا جو اس دم روم سے نکل کر اس طرف آئی تھی' احد کے ہاتھ میں بیگ دیکھتے متحیر ہوئی۔
"جی بھابی ایک ریکارڈنگ کے سلسلے میں اسلام آباد جا رہا ہوں"۔ حرا کی آواز پہ احد اسکی جانب متوجہ ہوا۔
"لیکن اتنی ساری تیاریاں باقی ہیں اور تم اسلام آباد جا رہے ہو"۔ حرا حیران ہوئی۔
"بھابی صرف آج رات کی بات ہے کل شام تک آ جاوں گا"۔ احد نے کہا۔
"اچھا"۔
"احد بیٹا تم رکو میں آتی ہوں"۔ بولتے ہی راضیہ بیگم اپنے روم کی جانب بڑھیں۔
"احد"۔ راضیہ بیگم کے جاتے ہی حرا نے اسے مخاطب کیا۔
"جی بھابی؟"۔
"احد تم نے وہ تعویز اتارا تو نہیں؟؟"۔ حرا نے تصدیق کرنی چاہی۔
"نہیں بھابی تعویز میں نے باندھا ہوا ہے اور آپ بے فکر رہیں انشاءاللہ میں اسے کبھی نہیں اتاروں گا چاہے جو کچھ مرضی ہو جائے"۔ احد نے حرا کو یقین دہانی کرائی۔
"یہی بہتر ہے"۔ حرا نے پرمسرت انداز میں کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"کیا ہوا مشائم اتنی اپ سیٹ کیوں ہو؟ بیٹھ جاو یہاں سے وہاں ٹہل کیوں رہی ہو وہ بھی نجانے کب سے"۔ دن ڈھل کر ہلکی شام میں تبدیل ہو گیا تھا ایسے میں مشائم ہاتھ میں فون پکڑے لان میں' ہڑبڑاہٹ میں چہل قدمی کر رہی تھی جب فروا بےزارگی میں چیئر سے اٹھتے مشائم کے قریب آئی۔
"یار فروا احد میری کال ریسیو نہیں کر رہا اور اب تو اسکا فون بھی آف جا رہا ہے۔ مجھے تو بہت ٹینشن ہو رہی ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا"۔ مشائم کے چہرے پہ اضطراب کی جھریاں نمایاں ہوئیں۔
"تو کہیں بزی ہو گا اس میں پریشان ہونے والی کونسی بات ہے یار؟ ریلیکس رہو اور بیٹھ جاو"۔ فروا نے بے لحاظی سے کہا۔
"پتہ نہیں یار میرے ساتھ کیوں ایسا ہو رہا ہے' میری تو سمجھ سے اوپر کی بات ہے"۔ مشائم متذبذب چیئر پہ آ بیٹھی تھی۔
"وہ اس لیئے میری جان کہ۔۔"۔
"خبردار میں صرف احد کی جان ہوں"۔ مشائم نے فورا سے اسے ٹوکا۔
"اوکےفائن' تو مس مشائم' مسٹر راکسٹار احد سمعان کی جان تمھیں اسکی عادت ہو گئی ہے اب تم اسے لے کر پوزیسو ہو گئی ہو۔ ہر وقت احد کے بارے میں سوچنا'باتیں کرنا جیسے احد کے علاوہ کوئی اور ٹاپک ہے ہی نہیں تمھارے پاس"۔ مشائم کے سامنے بیٹھتے فروا نے مزے لیتے کہا۔
مشائم فروا کی بات پہ ہنس دی۔
"اب ہنسو جیسے بڑے اچھے کام ہیں نا تمھارے"۔ فروا نے چڑ کر کہا جس پہ مشائم نے قہقہ بلند کیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"ویلکم مسٹر راکسٹار؟؟"۔ احد اسلام آباد پہنچتے ہی سیدھا سٹوڈیو پہنچا تھا۔ سٹوڈیو داخل ہوتے ہی چیتس نے احد کا خیر مقدم کیا۔
"بہت شکریہ چیتس'سناو کیا حال ہے؟"۔ احد نے مسکراہٹ اسکی طرف اچھالی۔
"ٹھیک ہوں تمھیں زیادہ پریشانی تو نہیں ہوئی؟"۔ چیتس نے کہا۔
"نہیں سفر کا پتہ ہی نہیں چلا اچھا تم مجھے گانے کے لیرکس اور دھن بتاو تاکہ میں تھوڑی پریکٹس کر لوں"۔
"ٹھیک ہے"۔ بولتے ہی چیتس نے اپنے پشت پہ بنے سسٹم پہ رکھے ایک پیج کو اٹھایا اور احد کی طرف بڑھایا۔ "یہ لو احد' یہ گانے لے لیرکس ہیں اور سر تمھیں ابھی عرفان آ کے بتائے گا ایکچوئلی یہ گانا اسنے لکھا ہے ہوپ سو کہ اسے اس گانے کے سروں کی بھی تمیز ہے"۔ چیتس نے انتباہ کیا۔
"چل کوئی بات نہیں میں انتظار کر لیتا ہوں"۔ بولتے ہی احد وہیں ریوالونگ چیئر پہ بیٹھ گیا تھا۔
"ویسے ایک بند کے سر مجھے معلوم ہیں اسنے بتائے تھے مگر صحیح سے یاد نہیں"۔ چیتس نے مزید کہا۔
"تو پھر مجھے بتا دو عرفان کے آنے تک میں انہی کی پریکٹس کرتا ہوں"۔ احد نے بولتے ہی پیج اسکی طرف بڑھایا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"خیریت پوچھو
کبھی تو کیفیت پوچھو
تمھارے بن دیوانے کا
کیا حال ہے؟
دل میرا دیکھو
نا میری حیثیت پوچھو
تیرے بن ایک دن جیسے
سو سال ہے"۔
ریوالونگ چیئر پہ بیٹھے احد نے سر کا تانتا باندھے تان اٹھائی۔
"احد تمھاری آواز میں سوزش سی محسوس ہو رہی ہے جیسے گلا سیٹ نہیں۔ ایسا کرو ایک گلاس پانی پی لو'ایک سیکنڈ"۔ چیتس احد کو مخاطب کرتے ہی چیئر سے اٹھا اور سائیڈ پہ رکھے ٹیبل پہ پڑے جگ سے گلاس میں پانی انڈیلتے احد کی طرف بڑھایا۔ " یہ لو احد پانی پی لو"۔
پانی کا گلاس حلق سے اتارتے احد نے گلا کھنکارا۔
"ہوا سیٹ؟؟"۔ احد کے ہاتھ سے گلاس پکڑتے چیتس نے کنفرم کیا۔
"پتہ نہیں"۔
"ایسا کرو تم پریکٹس کرو میں کچھ دیر میں واپس آتا ہوں"۔ احد کو مطلع کرتے چیتس سٹوڈیو کا دروازہ کھولتے باہر نکل گیا۔
"انجام ہے طے میرا
ہونا تمھیں ہے میرا
جتنی بھی ہوں دوریاں
فلحال ہیں
یہ دوریاں فلحال ہیں"۔
احد دوبارہ سے زبان حرکت میں لایا تھا۔
"یار واقعی آج سر صحیح سے نہیں لگ رہا"۔ احد گنگنانے کے عمل سے باز رہا تب اسکے کانوں میں گپت آواز دوبارہ سے گونجی۔
"خیریت ۔۔ پوچھو
کبھی ۔۔ تو ۔۔ کیفیت ۔۔ پوچھو
تمھارے بن دیوانی کا
کیا ۔۔ حال ۔۔ ہے"۔
"وٹ دا ہیل از دس؟ تم میرے پیچھے یہاں تک آ گئی"۔ احد غصے میں چلایا۔
"ایک شہر سے دوسرے شہر' ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کیلیئے تم انسانوں کو ٹکٹ کی ضرورت ہوتی ہے ہم جنات کو نہیں"۔ مقابل میں آزمودہکاری سے جواب دینے کے بعد ہنس دیا گیا۔
"پتہ نہیں کس چیز کی بنی ہو؟"۔ احد نے بےزارگی میں سر تھام لیا۔
"آگ کی"۔ گپت آواز نے سنجیدگی میں آواز بھاری کرتے کہا۔ "یہ تعویز اتار دو"۔ غیبی صدا نے منشا ظاہر کی۔
"میں یہ تعویز نہیں اتاروں گا"۔ احد نے حتمی کہا۔
"احد میں تم سے آرام سے بول رہی ہوں کہ یہ تعویز اتار دو ورنہ"۔ غیبی قوت نے عتاب میں احد کو وارن کیا۔
"ورنہ کیا؟"۔ احد طیش میں چیئر سے اٹھا۔
"ورنہ انجام اچھا نہیں ہو گا"۔ مقابل میں جیسے کسی ناگہانی آفت کے بارے میں مطلع کیا گیا تھا جو احد کی سمجھ سے بالا تر تھا۔
"تمھیں جو کرنا ہے کر لو میں یہ تعویز کسی بھی صورت میں خود سے دور نہیں کروں گا"۔ احد نے اٹل فیصلہ سنایا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
رات کے آٹھ بج رہے تھے احد ہوٹل کے روم میں آیا جو اسکے لیئے مختص کیا گیا تھا۔ کوٹ اتار کے بیڈ پہ پھینکا پھر خود بھی بیڈ پہ ڈھے سا گیا تھا۔
"مشو"۔ خیال آتے ہی احد جھٹ سے سیدھا ہوا پھر پینٹ کی پاکٹ سے فون نکال کر مشائم کا نمبر ڈائل کیا۔
"ہمم"۔ فون دانستہ تیسری رنگ پہ اٹھا لیا گیا تھا۔
"مجھے ناراضگی کی بو آ رہی ہے"۔ احد نے ہولے سے کہا۔
"بو' تمھیں صرف بو آ رہی ہے میرا تن بدن آگ میں جھلس رہا ہے"۔ مشائم جو صبح سے احد سے رابطہ نا ہونے کی وجہ سے پریشان بیٹھی تھی' نے تپ کر کہا۔
"خدا خیر کرے کیا ہو گیا ہے؟"۔ بن بلائی شامت کا سوچ کے ہی احد کا دل زور سے دھڑکا تھا۔
"تمھیں نہیں پتہ؟؟ یا جان کے انجان بن رہے ہو؟"۔ مشائم کا غصہ دگنا ہوا۔
"مشو میں تمھیں کال کرنے ہی والا تھا سچی"۔ احد نے بات سنبھالنے کی کوشش کی۔
"ہاں کرنے والے تھے مگر کر نہیں سکے بہت مصروفیت جو ہے تمھاری زندگی میں' میری کیا وقعت"۔ مشائم کی آواز اب آنسوؤں کی آڑ میں مدھم ہو گئی تھی۔
"مشو پلیز رونا بند کرو تمھاری قسم میں آج واقعی بزی تھا اس وجہ سے تمھیں کال نہیں کی نا ہی کوئی میسج"۔ احد نے معذرت کرتے کہا۔
"اچھا' کہاں بزی تھے؟؟"۔ مشائم کے جواب میں احد لمحہ بھر کو خاموش ہوا۔
"شا شادی کی تیاریوں میں اور کہاں' پاگل"۔ احد نے خوش کن لہجے کی ضرب لگائی۔
"بس تم مجھ سے ابھی ملنے آو"۔ مشائم بضد ہوئی۔
"ابھی"۔ احد چونک اٹھا۔
"ہاں ابھی؟ کیوں کوئی مسئلہ ہے؟"۔ مشائم نے کنفرم کیا۔
"مشو ابھی میں تھک گیا ہوں کل ملنے آوں گا اسی وقت"۔ احد نے ادل بدل سے کہا۔
"نہیں میں تم سے کل ملنے آوں گی خود' بائے"۔ مشائم نے فیصلہ سناتے رابطہ ختم کر دیا تھا۔
"مشو سنو تو صحیح ۔۔ کیا مصیبت ہے یار"۔ رابطہ منقطع ہو جانے کے بعد احد نے خفگی اور پریشانی میں فون بیڈ پہ پھینکا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆